Orhan

Add To collaction

آتشِ عشق

آتشِ عشق از سیدہ قسط نمبر6

حفصہ۔۔۔۔۔بیٹھی اپنا کام کر رہی تھی تبھی اسکے موبائل پہ میسج آیا۔۔۔۔۔ اسنے دیکھا تو کوئی اجنبی نمبر اور میسج میں لکھا تھا اپنی کھڑکی پہ آئیں۔ ۔۔۔۔ عجیب ہے کون ہے۔۔۔۔؟اس نے میسج پڑھ کر موبائل رکھا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کے اس ہی نمبر سے کال آنے لگی حفصہ نے کال اٹھائی۔۔۔۔ جی کون ؟ دیکھیں پلیز ایک بار آجائیں کھڑکی پہ۔۔۔۔دوسری جانب سے آنے والی آواز کو وہ پہچان گئی آپ آپ کو میرا نمبر کہاں سے ملا۔۔۔؟حفصہ غصہ میں آگئی پلیز دیکھیں۔۔۔۔!!وہ سب چھوڑیں آپ آجائیں۔۔۔۔۔اس نے وہی بات دوہرائی۔۔۔۔۔ میں نہیں آرہی۔۔۔۔حفصہ نے غصہ کہہ کر کال کاٹ دیا اور موبائل بند کر کے رکھ دیا کیا ہوگیا اتنی پریشان کیوں ہو انشرا جو نہا کر نکلی تھی حفصہ کو پریشان دیکھ کر کہا یار وہی لڑکا کب سے میسج اور فون کر کے تنگ کر رہا۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہا ہے۔۔۔؟ بول رہا ہے کھڑکی پہ آجاؤ۔۔۔۔۔حفصہ نے بستر پہ لیٹتے ہوے کہا۔۔۔۔۔۔ یار کیا پتا نیچے ہو۔۔۔؟انشرا نے کہا اور کھڑکی کے جانب گئی حفصہ وہ دیوانہ تیرے لئے پھول لے کر نیچے بینچ پہ بیٹھا ہوا ہے انشرا نے حیرت سے کہا بیٹھے رہنے دو تم بھی سو جاؤ۔۔۔حفصہ نے کروٹ لیتے ہوے کہا کیوں اتنا پاگل ہوا ہے یہ۔۔۔۔؟حفصہ کے دل میں بار بار سوال اٹھ رہا تھا حفصہ کافی دیر تک کروٹیں بدلتی رہی۔۔۔۔۔بار بار اس ہی کا خیال آرہا تھا۔۔۔۔ اس نے اٹھ کر انشرا کو دیکھا وہ سو رہی تھی۔۔۔۔وہ خاموشی سے اٹھی اور کھڑکی کے جانب گئی تو دیکھا وہ دیوانہ بینچ پہ سر ٹیکا کر بیٹھا تھا حفصہ کو کھڑکی پہ دیکھ کر وہ کھڑا ہوگیا حفصہ نے اسکے ہاتھ میں دیکھا تو پھول تھا۔۔۔۔اور اسکی آنکھیں سوجی ہوئی تھی جیسے رویا ہو۔۔۔۔۔ حفصہ کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔۔لیکن ذہن میں آغا جان کا خیال آتے ہی وہاں سے ہٹی اور بستر پہ آکر لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔ سونے کی بہت کوشش کی لیکن ذہن بار بار اس ہی کی جانب جا رہا تھا حفصہ انشرا یونیورسٹی جانے کے لئے نیچے آئیں تو بینچ پہ پھول رکھے ہوے تھے۔۔۔۔۔۔حفصہ نے پھولوں کو دیکھا پھر جا کر اٹھایا اور اپر آکر اپنے روم میں رکھ دیا خیریت تو ہے۔۔۔۔انشرا کو اسکی اس حرکت پہ حیرت ہوئی اب کسی کے جذبوں کو اتنا ٹھس پوھچنا اچھا نہیں ہے۔۔۔۔ حفصہ نے کہا اور مسکرا کر آگئی بڑھ گئی حفصہ انشرا کے جانے کے بعد وہ جہاں چھپا تھا باہر نکلا شکر ہے۔۔۔۔کچھ اثر ہوا میری محنت کا۔۔۔۔۔۔


اماں یار دن سے اندر ہے باہر ہی نہیں آرہی ہے۔۔۔۔روحان بیچارہ دن سے انابیہ کے لئے پریشان تھا وہ زہرہ کے کمرے میں ادھر ادھر ٹھل رہا تھا کچھ کھایا بھی نہیں ہے اس نے۔۔۔۔ ارے تم تو بیٹھ جاؤ کب سے گھومے جا رہے ہو زہرہ نے روحان کو بیڈ پہ بیٹھایا پریشان مت ہو اس سے بھوک برداشت نہیں ہوتی۔۔۔۔جاؤ اسے باہر لے کر آجاؤ روم سے اب آجاے گی وہ۔۔۔۔۔۔ روحان اٹھ کر انابیہ کے روم کی طرف گیا انابیہ کتنے چکر لگا چکا ہوں جاؤ باہر۔۔۔۔۔میری پرنسس۔۔۔۔۔بھوک نہیں لگی ہے میں تو باہر جا رہا ہوں ڈنر پہ۔۔۔۔۔۔روحان دروازے پہ دستک دیتے ہوے اونچی آواز میں کہا۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کے دروازہ کھولا۔۔۔۔انابیہ باہر آئی اور مکمل تیاری کے ساتھ ارے واہ اتنا تیار کیوں ہو ۔۔۔۔؟روحان نے بلیک ڈریس میں سامنے کھڑی معصوم سی انابیہ سے پوچھا آپ اکیلے نہیں جائیں گے میں بھی جاؤں گی انابیہ نے روحان کا ہاتھ تھام کر کہا ہاہاہا۔۔۔۔چلو پھر۔۔۔۔۔روحان نے بھی اسکا ہاتھ تھاما اور چل دیا ڈنر کی وجہ سے انابیہ کو موڈ اچھا ہوگیا تھا پھر روحان اسے شاپنگ پہ لے گیا۔۔۔۔ انابیہ خوشی چیزیں خرید رہی تھی۔۔۔۔انابیہ چوڑیوں کی دکان پہ روکی۔۔۔۔۔اس نے چوڑیاں پسند کی ناپ کے لئے دکان والے نے انابیہ کے ہاتھ میں چوڑیاں ڈالنا چاہی۔۔۔۔۔ بھائی میں خود پہنا دونگا آپ مجھے دے دو۔۔۔۔روحان نے خود ہی اسکے دونوں ہاتھوں میں کالی چوڑیاں پہنائی۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے اسے مانا کیوں کیا۔۔۔۔؟ کیوں کے مجھے بلکول بھی نہیں پسند تمھیں کوئی ٹچ کرے۔۔۔۔روحان نے ساتھ چلتے ہوے جواب دیا مطلب کیوں۔۔۔۔؟انابیہ کو سمجھ نہیں آیا اپنے چھوٹے سے ذہن میں اتنا زور مت ڈالو بڑی ہو جاؤگی تو سمجھ جاؤ گی۔۔۔۔۔۔روحان نے مسکراتے ہوے کہا


وہ بستر پہ بیٹھا کام کر رہا تھا کام سے فارغ ہو کر سونے کے لئے لیٹا۔۔۔۔۔لیکن نیند آنکھوں سے بہت دور تھی اسلئے سائیڈ ٹیبل کے دراز کے ایک تصویر نکالی کتنا دور چلی گئی نا تم۔۔۔۔میرے ذہن میرے خیال میرے کام میرے اس دل میں تو ہو بس میرے پاس نہیں ہو۔۔۔۔۔مجھے اس دن کا انتظار ہے جس دن میں تمہارے پاس ہونگا۔۔۔۔نہیں ہو کے بھی مجھے دیکھائی دیتی جانے کے بعد بھی تنگ کرتی ہو۔۔۔۔۔بول اسکے لب رہے تھے رو اسکی آنکھ اور دل رہا تھا۔۔۔۔۔۔ تبھی کمرے کا دروازہ کھولا۔۔۔۔اور اسکے بھائی اندر آے بھائی کو اندر آتا دیکھ کر اس نے جلدی سے تصویر چھپا لی اور آنسوں صاف کر کے اٹھ کے بیٹھ گیا بھائی آپ آجائیں بیٹھیں۔۔۔۔وہ آکر اسکے ساتھ بیڈ پہ بیٹھ گئے خیریت۔۔۔۔؟ یہ تو مجھے پوچھنا چاہیے۔۔۔۔۔آنکھیں لال ہے تو پھر رو رہا تھا نا۔۔۔۔۔کیوں تو خود کو تکلیف دیتا ہے اسکے بھائی سب جانتے تھے بھائی جب جسم کا ایک حصہ کٹ کے الگ ہو جائے نا تو اس کٹے ہوے حصے پہ تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔یہی کچھ حال میرے دل کا ہے مجھے پتا ہے لیکن تو آگئے بڑھ امی نے کتنی بار کہا ہے رشتے کا لیکن تو مانتا نہیں ہے کسی دوسری لڑکی کو سوچ تو سہی ۔۔۔۔۔ بھائی اسے سوچنے سے فرصت ہی نہیں ملتی تو کیسے میں کسی اور لڑکی کو سوچوں۔۔۔۔۔آپ جانتے ہیں میری پہلی محبت نہیں عشق تھی وہ اور میں خود کو کسی اور کے ساتھ سوچ کر اس سے بے وفائی نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔وہ ہمیشہ کہتی تھی چھوڑ تو نہیں دوگے بے وفائی تو نہیں کرو گے جب میں نے اس کے رہتےہوۓ اس سے بے وفائی نہیں کی تو اسکے جانے کے بعد کیسے کروں۔۔۔۔وہ کہہ بھی رہا تھا اور ساتھ آنکھوں سے اشک بھی بہہ رہی تھے بھائی کو روتے دیکھ انہوں نے اسے گلے سے لگا لیا۔۔۔کاش کے میرے پاس تیرے درد کی دوا ہوتی۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments